إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
بے شک اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ کوئی بھی مثال بیان کرے، مچھر کی ہو پھر اس کی جو اس سے اوپر ہے، پس لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے سو جانتے ہیں کہ بے شک ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور رہے وہ جنھوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں اللہ نے اس کے ساتھ مثال دینے سے کیا ارادہ کیا ؟ وہ اس کے ساتھ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ بہتوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔
کفار سے جب چیلنج کا جواب نہ بن پڑا اور جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے اعتراض کردیا کہ اللہ تعالیٰ جو مالک الملک ہے اور جو کتاب اتنی عظیم ہے اس میں مکھی اور مچھر جیسی حقیر چیزوں کی مثال دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مکھی اور مچھر کی مثال دے کر کافروں کے معبودان باطلہ کی کمزوری واضح کردی، کیونکہ وہ بھی تو حقیر چیز ہی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں اس میں بڑے اور چھوٹے کی بحث نہیں ۔ مشرکین کے شرک کی مثال بیان كرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ اور اگر مکھی کچھ ان سے چھین کر لے جائے تو یہ واپس بھی نہیں لا سکتے۔ بہت سوں کو ہدایت اور بہت سوں کو گمراہ کرتا ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جب كہ اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے جیسے سورج کی روشنی کسی کے لیے مفید ہوتی ہے اور کوئی اسے بُرا کہتا ہے ایک ہی چیز سے دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کلام الٰہی سے بھی کچھ لوگ ہدایت پاتے ہیں اور کچھ کو وہ گمراہ کردیتا ہے دراصل گمراہی کی باتیں صرف بد کردار لوگوں کو ہی سوجھتی ہیں ۔ پھر اللہ بھی انھیں اسی طرف چلا دیتا ہے ۔ ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کا فعل یقینا اللہ کا فیصلہ ہے ماننے والوں کے دل کا دروازہ کھل جاتا ہے اللہ توفیق دیتا ہے اللہ کی مثالیں حق ہیں۔ قرآن کریم حق ہے۔