وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ۖ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اور نہ تم کسی طرح زمین میں عاجز کرنے والے ہو اور نہ آسمان میں اور نہ اللہ کے سوا تمھارا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔
آخرت چونکہ دارالجزا ہے اس لیے انسان نے دنیاکی کھیتی میں جوکچھ بویاہوگا،اسی کی فصل اُسے وہاں کاٹنی ہوگی،جیسے عمل کئے ہوں گے اسی کی جزااسے وہاں ملے گی،اللہ کی بارگاہ میں بے لاگ فیصلے ہوں گے دنیاکی طرح اگرآخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن اورکافردونوں ہی رحمت الٰہی کے مستحق قرارپائیں توایک تواس سے اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پرحرف آتا ہے۔ دوسرے قیامت کامقصدہی فوت ہوجاتاہے۔قیامت کادن تواللہ نے رکھاہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلہ میں جنت اور بدوں کوان کی بدیوں کی جزامیں جہنم دی جائے۔اسی لیے قیامت والے دن اللہ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی جسے یہاں بھی بیان کیا گیاہے کہ جولوگ آخرت کے عذاب کے ہی منکرہوں وہ میری رحمت سے نا اُمیدہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الٰہی نہیں آئے گی ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۵۶) ’’میں یہ رحمت (آخرت میں)ان لوگوں کے لیے لکھوں گاجومتقی،زکوٰۃ اداکرنے والے اورہماری آیتوں پرایمان رکھنے والے ہوں گے‘‘