فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنبَاءُ يَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاءَلُونَ
تو اس دن ان پر تمام خبریں تاریک ہوجائیں گی، سو وہ ایک دوسرے سے (بھی) نہیں پوچھیں گے۔
اسی طرح قیامت والے دن انھیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوجھے گا چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِيْلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۷۲) ’ ’جو شخص یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا اور راہ بھولا رہے گا۔‘‘ یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کرسکیں یہاں دلائل کو اخبار سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ فرمادیا کہ ان کے باطل عقائد کی حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ صرف قصص و حکایات ہیں۔ نہ ہی ان سے یہ بن آئے گا کہ وہ کسی دوسرے سے پوچھ کر ہی اس سوال کا جواب دے سکیں ۔ اس دن کی دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات پوچھ ہی نہ سکیں گے۔