وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ
اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کردیں جو اپنی معیشت پر اترا گئی تھیں، تو یہ ہیں ان کے گھر جو ان کے بعد آباد نہیں کیے گئے مگر بہت کم اور ہم ہی ہمیشہ وارث بننے والے ہیں۔
یہ کفار مکہ کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے یعنی تمہیں خطرہ ہے کہ اگر تم مسلمان ہوگئے تو تمہاری سیاسی برتری اور تمہاری معیشت تباہ ہوجائے گی۔ تو تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوکر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کاانجام کیاہو۔ آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈ ر بنی ہوئی ہیں یا صرف تاریخ کے صفحات پر ان کا نام باقی رہ گیاہے اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر سستالیں تو سستالیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہناپسند نہیں کرتا۔ کفارکے اعتراض کا تیسرا جواب: یعنی اپنی معیشت پراترانے اور اپنا معیار زندگی بلند رکھنے والے لوگ مرکھپ گئے اور ان کی جائیدادیں جن پر وہ گھمنڈ کیاکرتے تھے سب وہیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ان کا کوئی وارث بھی باقی نہ رہا بالآخر ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔ حضرت کعب (تابعی ) رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اُلو سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے دریافت فرمایاکہ تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا؟ اس نے کہا اس لیے کہ اسی کے باعث حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے، پوچھا پانی کیوں نہیں پیتا ؟ کہا اس لیے کہ قوم نوح اسی میں ڈبو دی گئی، پوچھا ویرانے میں کیوں رہتاہے ؟ کہااس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے پھر حضرت کعب رحمہ اللہ نے (وَ کُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ)پڑھا۔ (ابن کثیر)