وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور نہ تو پہاڑ کے کنارے پر تھا جب ہم نے آواز دی اور لیکن تیرے رب کی طرف سے رحمت ہے، تاکہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
یہ تینوں واقعات آپ کی نبوت پر دلیل ہیں اور سابقہ کتب میں تحریف کی تصحیح بھی۔ گویا ان تین واقعات کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت کی دلیل و صداقت کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ (۱)جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو معجزات عطا کرکے فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا اور امر رسالت تفویض کیا تھا۔ (۲)مدین کے حالات، جب موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول کر آگ لینے کی غرض سے آئے، ہم نے خود انھیں پکار کر ہم کلامی کاشرف بھی بخشا اور رسالت بھی عطاکی اور یہ واقعات آپ کی نبوت پر دلیل اس طرح ہیں کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ (۳) آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو ان حالات سے مطلع کردیا ۔ یہ واقعات و حالات اصل حقائق کے عین مطابق ھیں یعنی اہل حجاز کے لیے اس دوہزار سال میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہواتھا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعدنبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہی ہوتی رہی۔ بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے نبی تھے اور سلسلہ نبوت کے خاتم بھی تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے نہیں سمجھی گئی ہوگی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کاپیغام ان کو پہنچتارہاہوگا۔ لیکن ان میں کافی اختلافات تھے۔ اب ہم نے ان لوگوں میں آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے تاکہ انھیں صحیح حالات کا علم ہوجائے اور وہ سابقہ اُمتوں کے انجام سے متنبہ ہو کر سبق حاصل کریں اور اللہ سے شرک اور سرکشی کی راہ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں۔