وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
اور لیکن ہم نے کئی نسلیں پیدا کیں، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی اور نہ تو اہل مدین میں رہنے والا تھا کہ ان کے سامنے ہماری آیات پڑھتا ہو اور لیکن ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے لے کر دور نبوی تک تقریباً دو ہزار سال کی مدت ہے۔ اس عرصہ میں تقریباً چالیس نسلیں یکے بعد دیگرے پیداہوتی رہیں مگر اس دوران ملک حجاز میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہواتھا۔ دوہزار سال بعد آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل حجاز میں مبعوث ہوئے ۔ اس عرصہ میں لوگ دین کو بھول گئے جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور اس طویل زمانہ میں عرب کے لوگ نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر انھیں تعجب ہو رہاتھا اور اسے ماننے کے لیے تیارنہیں تھے۔ آپ مدین کے باشندے بھی نہ تھے: یعنی مدین کاباشندہ نہ ہونے کے باوجود آپ ان لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات یوں بتارہے ہیں گویا اس وقت آپ وہاں مقیم تھے اور ان لوگوں کو ہماری آیات پڑھ کر سنایاکرتے تھے بلکہ ہم نے بذریعہ وحی کے تجھے یہ سب خبریں پہنچائیں اور تمام جہان کی طرف تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا۔