قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
اس نے کہا بے شک میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں، اس (شرط) پر کہ تو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا، پھر اگر تو دس پورے کردے تو وہ تیری طرف سے ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں، اگر اللہ نے چاہا تو یقیناً تو مجھے نیک لوگوں سے پائے گا۔
لڑکی سے نکاح کی شرط: ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کے اظہار کو معیوب سمجھا جاتاہے لیکن شریعت الٰہیہ میں یہ مذموم نہیں ہے۔ صفات محمودہ کالڑکا اگر مل جائے تو اس سے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے رشتے کی بابت بات چیت کرنا بُرانھیں ہے بلکہ محموداور پسندیدہ ہے ۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔ باپ نے لڑکیوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس رائے سے اتفاق کرلیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھاجائے لیکن گھر میں اتنی آسودگی تو تھی نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کچھ ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھا جاسکتااور اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ گھر میں دو نوجوان لڑکیاں بھی موجود تھیں ۔ چنانچہ لڑکیوں سے مشورہ کرنے کے بعد ایک دن موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اور آپ نکاح کے بعد میرے پاس ہی رہ کر گھر کاسارا کام کاج سنبھا لیں اور نکاح کے بعد کم ازکم آٹھ سال تو ضرور میرے پاس رہیں اور اگر یہ مدت آٹھ سال سے بڑھا کر دس سال کردیں تو آپ کی مہربانی ہوگی ۔ میری طرف سے اس زائد مدت کی پابندی نہ ہوگی اور میں ان شاء اللہ اس معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دینے کی کوشش کروں گا اور کوئی سخت کام یا خدمت تم سے نہ لوں گا، نہ جھگڑا کروں گا، نہ اذیت پہنچاؤں گا۔