قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
دونوں میں سے ایک نے کہا اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقتور، امانت دار ہی ہے۔
بعض مفسرین نے لکھاہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا،تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور امانت دار بھی ۔ جس پر بچیوں نے بتلایاکہ جس کنوئیں سے اس نے پانی پلایا ہے، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھاہوتاہے کہ اسے اٹھانے کے لیے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھاکہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا۔ اس طرح جب میں اس کو بلاکر اپنے ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کاعلم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے، لیکن ہوا سے میری چادر اُڑجاتی تھی تو اس شخص نے کہاکہ تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتاہوں تاکہ میری نظر ترے جسم کے کسی حصہ پر نہ پڑے ۔ راستے کی نشاندہی کے لیے پیچھے سے پتھر یا کنکر مار دیا کر۔ (واللہ اعلم،ابن کثیر)