فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی، اس نے کہا بے شک میرا والد تجھے بلا رہا ہے، تاکہ تجھے اس کا بدلہ دے جو تو نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ تو جب وہ اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے حال بیان کیا تو اس نے کہا خوف نہ کر، تو ان ظالم لوگوں سے بچ نکلا ہے۔
اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی، اور دونوں میں سے ایک لڑکی انھیں بلانے آگئی ۔ لڑکی کی شرم وحیاکا قرآن نے بطور خاص ذکر کیاہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیا و حجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لیے شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ لڑکی لجاتی، شرماتی گھونگٹ لٹکائے آپ کے پاس آکر کہنے لگی کہ میرا والد آپ کو بلا رہاہے ۔ آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلا کر ہم پر جو احسان کیا ہے وہ آپ کو اس کاکچھ بدلہ دیناچاہتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام فوراً اس لڑکی کے ساتھ ہو لیے۔ اسی بات سے اندازہوتاہے کہ آپ بھوک سے کس قدر بے تاب تھے۔ آپ نے بھی اس لڑکی سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ چلتاہوں مگر میں آگے آگے چلوں گا تم میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ البتہ مجھے راستے کی راہنمائی کرتی جانا اور یہ آپ نے اس لیے کہاکہ اجنبی عورت پر عمداً نظر پڑنے کی نوبت نہ آئے چنانچہ وہ پیچھے سے راستہ بتاتی انھیں لے کر اپنے گھر پہنچ گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرم و حیا سے ہمیشہ بھلائی ہی ملتی ہے۔ (بخاری: ۶۱۱۷، مسلم: ۳۷) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں آتا ہے کہ آپ اس شرمیلی لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھےجو گھر کے کونے میں پردہ کے پیچھے بیٹھی رہتی ہے۔ (بخاری: ۶۱۱۹، مسلم: ۲۳۲۰) مدین میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قیام کا بندوبست: گھر پہنچ کر موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم وستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہاکہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرمادی ہے۔ اب آپ میرے ہاں قیام فرمائیے۔ اس طرح اللہ نے وقتی طور پر موسیٰ علیہ السلام کے قیام و طعام کامسئلہ حل فرمادیا۔