وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
اور وہ شہر میں اس کے رہنے والوں کی کسی قدر غفلت کے وقت داخل ہوا تو اس میں دو آدمیوں کو پایا کہ لڑ رہے ہیں، یہ اس کی قوم سے ہے اور یہ اس کے دشمنوں میں سے ہے۔ تو جو اس کی قوم سے تھا اس نے اس سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا، تو موسیٰ نے اسے گھونسا مارا تو اس کا کام تمام کردیا۔ کہا یہ شیطان کے کام سے ہے، یقیناً وہ کھلم کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ شاہی محلات شہریاعام لوگوں کی رہائشی آبادیوں سے کچھ دورتھے جیساکہ عام دستورہے کہ بڑے بڑے لوگ عام آدمیوں میں گھل مل کررہناپسندنہیں کرتے بلکہ شہرسے دورکھلی فضاؤں میں اپنے بنگلے کوٹھیاں اور محل بناتے ہیں۔ شہرغفلت میں تھا: یعنی جب لوگ سورہے تھے اورراستے اور سڑکیں سنسان اوربے آبادمعلوم ہوتی تھیں ایساوقت عموماً علی الصبح ہوا کرتا ہے یا گرمیوں میں دوپہر کے بعد جب اکثر لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں غرض جب موسیٰ علیہ السلام شہرمیں داخل ہوئے تودیکھاکہ دوآدمی آپس میں لڑرہے ہیں۔ان میں ایک فرعون کی قوم کاقبطی تھااوردوسراموسیٰ علیہ السلام کی قوم کا۔ان لڑنے والوں میں سے سبطی (بنی اسرائیلی) نے آپ کومددکے لیے پکاراکہ میں اسے قبطی کے ظلم سے چھڑاؤں اورجب انہیں معلوم ہواکہ زیادتی قبطی ہی کررہاہے۔تورگ حمیت جوش میں آگئی اوراسے ایک گھونسارسیدکیاجس سے قبطی کاکام تمام ہوگیا۔ یہ توایک شیطانی حرکت ہے: اسے شیطانی فعل اس لیے قراردیاکہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے۔اورموسیٰ علیہ السلام کامقصداسے ہرگزقتل کرنانہیں تھا۔اورشیطان کی دشمنی بھی واضح ہے اورانسان کوگمراہ کرنے کے لیے وہ جوجوجتن کرتاہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔