وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تو اس پر ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو وحی کے ذریعے ہدایات: یہ وحی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ہوئی اور یہ وحی چار امور پر مشتمل تھی ۔ (۱) جب تک اس بچے کی سراغ رسانی نہیں ہوتی اسے اپنے پاس ہی رکھو اور اسے دودھ پلاتی رہو۔ بعض مفسرین نے لکھاہے کہ ام موسیٰ نے آپ کو تین ماہ تک چھپائے رکھاتھا۔ (۲) جب یہ راز فاش ہونے لگے اور تمہیں یہ خطرہ محسوس ہو کہ اب عمال حکومت اس بچے کو پکڑکر لے جائیں گے تو اس کو کسی تابوت یا ٹوکرے میں رکھ کر دریا کی موجوں کے سپرد کردینا۔ (۳)اور دریا میں ڈالتے وقت اس بات کاہرگز اندیشہ نہ کرناکہ یہ بچہ ضائع ہوجائے گا بلکہ ہم بہت جلد یہ بچہ تیری ہی طرف لوٹا دیں گے تو ہی اسے دودھ پلائے گی اور اس کی پرورش کرے گی۔ (۴) یہی وہ بچہ ہے جو بنی اسرائیل میں رسول بننے والاہے۔کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کایہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو یہ خطرہ لاحق ہواکہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہوجائے اور پھر مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑیں ۔ اس اندیشے کاذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کردیاگیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑدیے جائیں۔ حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیداہوئے جس سال بچے قتل نہیں کئے جاتے تھے ۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام قتل والے سال میں پیدا ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان اس طرح فرمایاکہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے، جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی جاسوس دائیوں کی نگاہ میں آجاتیں۔ اس لیے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ حل ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کااندیشہ موجود تھا، جس کا حل خو داللہ تعالیٰ نے وحی والقاکے ذریعے سے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو سمجھا دیا، چنانچہ انھوں نے اسے تابوت میں ڈال کر دیائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)