وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں جنھیں زمین میں نہایت کمزور کردیا گیا اور انھیں پیشوا بنائیں اور انھی کو وارث بنائیں۔
مظلوم بنی اسرائیل پر اللہ کی نظر کرم: فرعون تو اس گروہ کاکلی استحصال کرناچاہتاتھامگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ اللہ یہ چاہتاتھا کہ ایسی سفاک اور ظالم قوم کا استیصال ہونا چاہیے اور جن بے چاروں پر یہ ظلم ڈھا رہے ہیں انھیں نہ صرف ان سے نجات دلائی جائے بلکہ انھیں ان ظالموں کی جائیدادوں اور ملک کاوارث بنادیاجائے۔ دین کی امامت بھی انہی کے سپرد کی جائے اور دنیا کی سرداری کا تاج بھی انہی کے سر پر رکھ دیاجائے۔ رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں رہ سکتی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی۔ اللہ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ وہ ظالموں اور متکبروں سے زمین خالی کرا کر ان کی جگہ مظلوموں کو آباد کرتاہے، جن پر ظلم ڈھائے گئے تھے۔