إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت دی اور اسی کے لیے ہر چیز ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوجاؤں۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتاہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری پر مامور ہوں جیساکہ ارشاد ہے: ﴿فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ۔ الَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ ﴾ (قریش: ۳۔ ۴) انھیں چاہیے کہ وہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں اروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بے خوف کررکھاہے۔ اور فرمایاکہ اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہوا کرے، میں تو جن کی تم عبادت کررہے ہو، ان کی عبادت ہرگز نہیں کروں گا میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری موت اور زندگی کا مالک ہے ۔ حرمت والاسے مراد شہر مکہ ہے اس کاذکر بطور خاص اس لیے کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایاکہ یہ شہر اسی وقت سے باحرمت ہے، جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیداکیاہے۔ یہ اللہ کی حرمت دینے سے حرمت والا ہی رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے، نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں، نہ اس کا شکار خوف زدہ کیاجائے، نہ اس میں کسی کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے،ہاں جو پہچان کر مالک کو پہچانا، چاہے اس کے لیے جائز ہے اور اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔ یہ حدیث بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں مروی ہے۔ (بخاری: ۱۸۳۴، مسلم: ۱۳۵۳)