وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقیناً فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
جس جانور کایہاں ذکر ہے یہ لوگوں کے بالکل بگڑ جانے اور دین حق کو چھوڑ بیٹھنے کے وقت اخیر زمانے میں ظاہر ہوگا۔ کہ جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا کوئی نہیں رہ جائے گا۔ دابۃ الارض کی حقیقت: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھ چیزوں سے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، ایک آفتاب کا مغرب سے نکلنا، دوسری دھواں، تیسری دجال، چھوتی زمین کا جانور پانچویں موت اور چھٹی قیامت۔ (مسلم: ۲۹۴۷) سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آئے جبکہ ہم گفتگو میں مشغول تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’تم لوگ کیا باتیں کررہے تھے ۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا ’’قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نشانیاں بتائیں ۔ دھواں، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے نکلنا،نزول عیسیٰ ابن مریم،یاجو ج ماجوج کا خروج، تین مقامات پر زمین کا خسف مشرق میں، مغرب میں اور جزیرۃ عرب میں، اور ان نشانیوں کے بعد ایک آ گ پیداہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکال کر ہانکتی ہوئی ان کے محشر (سرزمین شام ) کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم: ۲۹۰۱) یہ جانور کے نکلنے کی علت ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی یہ نشانی اس لیے دکھلا ئے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں یا آیتوں (احکام ) پر یقین نہیں رکھتے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ جملہ وہ جانور اپنی زبان سے ادا کرے گا تاہم اس جانور کے لوگوں سے کلام کرنے میں تو کوئی شک نہیں کیوں کہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے۔