وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
اور نہ تو کبھی اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لانے والا ہے، تو نہیں سنائے گا مگر انھی کو جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں، پھر وہ فرماں بردار ہیں۔
قرآن کریم کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ سماع موتیٰ کاعقیدہ قرآن کے خلاف ہے۔ مرد ے کسی کی بات نہیں سن سکتے ۔ البتہ اس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جہاں سماعت کی صراحت کسی نص (آیت ) سے ثابت ہوگی جیسے ایک حدیث میں آتاہے کہ ’’مردے کو جب دفنا کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتاہے۔ (بخاری: ۳۳۸، مسلم:۲۲۰) یا جنگ بدر میں کافرمقتولین کو جب وہ قلیب بدر میں پھینک دیے گئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب فرمایا، جس پر صحاب رضی اللہ عنہم نے کہا’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے روح خیموں جسموں سے گفتگو فرمارہے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ یہ تم سے زیادہ میری بات سن رہے ہیں‘‘ یعنی معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی بات مردہ کافروں کو سنوا دی۔ (بخاری: ۳۹۸۰) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور ہدایت صرف ان لوگوں کے حق میں مفید ہوسکتی ہے جو خود بھی ہدایت کے طالب ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو غور سے سنتے ہوں، ان کے دل زندہ ہوں، دل کے کانوں سے سنتے ہوں اور دل کی آنکھوں سے اللہ کی آیات میں غور و فکر کرتے ہوں اور ایسے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں اور ہدایت پاتے ہیں۔