قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بدشگونی پکڑی ہے۔ کہا تمھاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے، بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو آزمائے جا رہے ہو۔
قوم نے جواب دیاکہ ہماراتویقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اورتیرے یہ ماننے والے۔ یہی فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہاتھاکہ جوبھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جوبُرائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیرے اورتیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں، یہی اعتراض کفارمکہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا۔ سورۂ یٰسینٓ میں بھی کفارکااپنے نبیوں کویہی کہنا موجود ہےچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَالُوْا اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ﴾ (یٰسٓ: ۱۸) ’’ہم توآپ سے بدشگونی لیتے ہیں‘‘۔ اگرتم بازنہ رہے توہم توتمہیں سنگسارکردیں گے اورسخت تکلیف دیں گے،نبیوں نے جواب دیاکہ تمہاری بدشگونی توہروقت تمہارے وجودمیں موجود ہے، یہاں صالح علیہ السلام نے جواب دیاکہ تمہاری بدشگونی تواللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کابدلہ دے گا۔بلکہ تم فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو،تمہیں آزمایاجارہاہے۔اطاعت سے بھی اورمعصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جارہی ہے۔یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعدپکڑے جاؤگے۔