قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
اس آیت میں خصوصی خطاب یہود و مشرکین سے ہے جو جنگ خندق کے موقع پر یوں کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ نہ کھانے کو کچھ پاس ہے اور نہ ہی اسلحہ جنگ اور اپنے بچا ؤ کے لیے خندق کھود رہے ہیں اور قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب اس جامع دعا میں دیا ہے کہ عزت و ذلت، اقتدار سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آج جو حاکم ہیں کل محکوم ہونگے جو شہنشاہ ہیں وہ گدا بن جائیں، جو کمزور ہیں وہ طاقت ور بن جائیں، اللہ تعالیٰ عدل کیساتھ عزت اور عدل کیساتھ ہی ذلت دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بادشاہ كوئی نہیں سوائے اللہ كے ۔ یایہ فرمایا: مالك كوئی نہیں سوائے اللہ عزوجل كے۔‘‘ (مسلم: ۲۱۴۳) اور پھر فتح مكہ كے موقع پر اللہ نے اپنے رسول كو كس قدر عزت اور اعزاز سے بخشا اور آپ نے كمال حلم و بردباری كا مظاہرہ فرمایا۔ یہ سب اللہ كا فیصلہ تھا۔ (۲) قارون کو خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ (۳) فرعون کو سمندر میں غرق کردیا، فرعون بُرے وقت میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر ایمان لایا تو اللہ نے ٹھکرا دیا کہ اب ایمان لایا جب کچھ پاس نہ رہا۔ كسی نے كیا خوب كہا ہے كہ … افلاک سے آتے ہیں نالوں کے جواب آخر نمرود نے کہا: حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈال دو۔ تو اللہ نے کہا ’’اے آگ ٹھندی ہوجا۔ یہودی مکہ والوں کو امی یعنی ان پڑھ کہتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُسی امی کو کتنا بڑا علم عطا کیا۔ بھلائی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔