وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کردے کہ بجز ایمان کے کوئی چیز نجات دہندہ نہیں۔ پیغمبر کی دعوت صرف رشتے داروں کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو پوری نسل انسانی کے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے ۔ قریبی رشتے داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اس کاایک ترجیحی پہلو ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یا صبا حاہ کہہ کر آواز دی ۔ یہ کلمہ اس وقت بولاجاتاتھاجب دشمن اچانک حملہ کردے۔ اس کے ذریعہ سے قوم کو خبرد ارکیاجاتا۔ یہ سن کر لوگ جمع ہوگئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا’’بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر دشمن کالشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہو ا چاہتاہے تو کیا تم مانوگے ؟ سب نے کہاہاں، یقیناً ہم تصدیق کریں گے ۔ (حدیث)۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے ۔ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتاہوں ۔‘‘ اس پر ابو لہب نے کہا۔ تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے بلایاتھا؟ اس کے جواب میں سورۂ تبت نازل ہوئی۔ (بخاری: ۴۷۷۰) صحیح مسلم میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی سے بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کابندوبست کرلو ۔ وہاں میں تمہارے کام نہیں آسکوں گا۔ (مسلم: ۲۰۸)