سم
طٰسۤمۤ۔
تعارف قرآن حکیم: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیتیں قرآن مبین کی ہیں جو بہت واضح، بالکل صاف اور حق و باطل، بھلائی اور برائی کے درمیان فیصلہ اور فرق کرنے والا ہے، ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش تھی کہ کفار مکہ ایمان لے آئیں اور جب وہ ایمان لانے کی بجائے معاندانہ روش اختیار کرتے تو آپ کو اتنا ہی شدید صدمہ ہوتا تھا چنانچہ ارشاد ہے: ﴿فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ﴾ (فاطر: ۸) ’’تو ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت اور افسوس نہ کر۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ﴾ (الکہف: ۶) ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ تو ان کے پیچھے اپنی جان گنوا دے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر افسردہ اور غمگین نہ ہوں اور اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ انھیں راہ راست پر لانا آپ کے ذمہ نہیں اور جو کام آپ کے ذمہ ہے وہ آپ کر ہی رہے ہیں۔ آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑیئے، ان سے نمٹنا میرا کام ہے، آپ بس اپنا کام کرتے جائیے۔