وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔
اہل خانہ کو دیندار بنانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ دعا بھی ضروری ہے: مسلمانوں کی زندگی کچھ اس طرح گزر رہی تھی کہ اگر باپ مسلمان ہے تو اولاد کافر ہے۔ اور اولاد مسلمان ہے تو والدین کافر ہیں شوہر مسلمان ہے تو بیوی کافر ہے اور اگر بیوی مسلمان ہے تو شوہر کافر ہے۔ یہ صورت حال بھی مسلمانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کا باعث بنی ہوئی تھی۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کی صفات میں سے ایک یہ صفت بھی بیان کی گئی کہ وہ یہ بھی دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ازواج اور ہماری اولاد کو بھی ایمان کی دولت نصیب فرماتا، کہ ہمارے اس قلق والم کا تدارک ہو سکے۔ بیوی اور اولاد ایسی چیز ہیں جن سے انسان کو فطرتاً محبت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ محبت آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں، لہٰذا ہر مسلمان کو جس طرح اپنے حق میں دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ ویسے ہی ان کے حق میں بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر اس کے لیے پریشانیوں کا سبب نہ بن جائیں۔ بلکہ اللہ کے فرمانبردار اور دین کے خادم بن کرا س کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین چیزیں باقی رہ جاتی ہیں: (۱)نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ (۲)یا علم جن سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے۔ (۳) یا صدقہ جاریہ کے کام۔ (مسلم: ۱۶۳۱)