أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا
یا تو گمان کرتا ہے کہ واقعی ان کے اکثرسنتے ہیں یا سمجھتے ہیں، وہ نہیں ہیں مگر چوپاؤں کی طرح، بلکہ وہ راستے کے اعتبار سے زیادہ گمراہ ہیں۔
یعنی چوپائے جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں وہ اسے سمجھتے ہیں، اپنے مالک کے فرمانبردار ہوتے ہیں، مالک کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں، اگر انھیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو اپنے مالک کے گھر واپس آجاتے ہیں، مثلاً بھیڑ بکریوں کا ریوڑ اپنے ہانکنے والے کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز سنتا ہے، بھیڑ بکریاں پس اس کے اشارے پر چلتی ہیں۔ انھیں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ ہانکنے والا انھیں چرانے کے لیے لے جا رہا ہے یا ذبح کرنے کے لیے کیونکہ اللہ نے انھیں اتنی عقل نہیں دی۔ اور حضرت انسان کا یہ حال ہے کہ وہ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ اس کا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اپنی نیاز مندیوں اور نذروں نیازوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بنا لیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں آنکھیں اور کان اور دل اس لیے نہیں دئیے کہ یہ ان سے جانوروں جیسا کام لیں۔ بلکہ یہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی عقل وتمیز عطا کی ہے کہ یہ چرواہے اور قصائی میں امتیاز کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود جو شخص اپنے بھلے اور برے میں تمیز نہ کر سکے۔ اور رسولوں کی یاددہانی کے باجود اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا اور در در اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ چوپایوں سے بھی زیادہ بدتر اور گمراہ ہے۔