وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم کسی سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو ایسی گروی چیزیں لازم ہیں جو قبضے میں لے لی گئی ہوں، پھر اگر تم میں سے کوئی کسی پر اعتبار کرے تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور شہادت مت چھپاؤ اور جو اسے چھپائے تو بے شک وہ، اس کا دل گناہ گار ہے اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب جاننے والا ہے۔
اگر سفر میں قرض لینے کی ضرورت پڑجائے اور وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس صورت میں قرض لینے والا کوئی چیز (قرض دینے والا) کے پاس گروی رکھ دے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ چیزیں گروی رکھی جاسکتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ذرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی۔ رہن کے احکام: (۱) رہن رکھنے والا نفع و نقصان کا مالک وہی ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی نے گائے گروی رکھی وہ گائے مرگئی یا چوری ہوگئی تو نقصان رہن رکھوانے والے کا ہوگا۔ رکھنے والے کا نہیں۔ (۲) رہن لینے والا اس چیز سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلاً اگر کسی نے مکان گروی رکھوایا ہے تو وہ اس میں رہ نہیں سکتا نہ اسے کرایہ پر ہی دے سکتا ہے۔ زمین ہے تو اس پر کاشت نہیں کرسکتا یہ سود ہوگا الایہ کہ وہ ایسا فائدہ رہن رکھنے والے کے حوالے کردے۔ (۳)جن چیزوں پر رہن لینے والے کوکچھ خرچ کرنا پڑے تو اس کا فائدہ اٹھانے کا وہ حقدار ہے۔ مثلاً اگر رہن میں گائے ہے تو اُس کوچارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض وہ گائے کا دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مرہونہ جانور کی پیٹھ سواری کے لیے اور شیردار مرہونہ جانور کا دودھ پینے کے لیے اس کے اخراجات کے عوض جائز ہے۔ اور جو شخص سواری کرتا یادودھ پیتا ہے تو اُسی کے ذمہ اس کا خرچہ ہے۔‘‘ امانت: یعنی قرض خواہ کا قرضہ یا جو چیز اس نے لی ہو اور جس نے اس کی گواہی دی ہو وہ اسے لوٹانے کا ذمہ دار ہوگا۔ گنہگار دل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کوخبردار کرتے ہوئے فرمایا سن لو بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ہی درست ہوتا ہے۔ اور وہ بگڑ جائے تو سارا جسم ہی بگڑ جاتا ہے۔ یاد رکھو وہ ٹکڑا انسان کا دل ہے۔ (بخاری: ۵۲) اور ایك حدیث میں آتا ہے كہ ’’جب انسان کوئی گناہ کا کام کرتا ہے۔ تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اگر انسان توبہ کرلے تو وہ نقطہ دھل جاتا ہے، اور اگر توبہ نہ کرے بلکہ مزید گناہ کیے جائے تو نقطہ بڑھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کردیتا ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ: ۴۲۴۴۔ مسند احمد: ۲/ ۲۹۷، ح: ۷۹۵۱)