يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا
جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن مجرموں کے لیے خوشی کی کوئی خبر نہ ہوگی اور کہیں گے (کاش! ہمارے اور ان کے درمیان) ایک مضبوط آڑ ہو۔
جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے: اس دن سے مراد موت کا دن ہے، یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی، اس لیے کہ فرشتے اس موقعہ پر انھیں عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں، اور کہتے ہیں: ’’اے خبیث روح، خبیث جسم سے نکل، جس سے روح ان سے دوڑتی اور بھاگتی ہے، جس پر فرشتے اسے مارتے پیٹتے ہیں چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ تَرٰى اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ﴾ (الانفال: ۵۰) ’’کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، ان کے منہ اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَاسِطُوْا اَيْدِيْهِمْ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ﴾ (الانعام: ۹۳) ’’اور جب فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی۔‘‘ اس کے برعکس مومن کا جان کنی کے وقت حال یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جانفرا سناتے ہیں: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ۔ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ﴾ (حم السجدۃ: ۳۰۔ ۳۲) ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جاؤ جس کاتم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بے حد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔‘‘ ایک حدیث میں ہے: ’’فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں، اے پاک روح، جو پاک جسم میں تھی نکل! اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے۔‘‘ (مسند احمد: ۴/ ۲۸۸) ہم تم سے پناہ مانگتے ہیں: ’’حِجْرًا مَّھْجُوْرًا‘‘ حجر کے لفظی معنی روک کے ہیں اور یہ محاورہ ہے۔ حجر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پتھر کی طرح سخت بھی ہو اور روک یا آڑ کا کام بھی دے۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ جب اپنے کسی دشمن کو، جس سے انھیں تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہوتا، دیکھ کر یا کسی دوسری آفت کو دیکھ کر ’’حِجْرًا مَّھْجُوْرًا‘‘ کہنے لگتے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: ’’اس سے اللہ کی پناہ‘‘ یا ’’اللہ اس سے ہمیں بچائے‘‘ تو سننے والا عموماً یہ قول سن کر تکلیف نہیں پہنچاتا تھا، ایسے مجرمین بھی جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو یہی الفاظ بول کر ان سے پناہ مانگیں گے، لیکن اس دن انھیں کوئی پناہ نہ مل سکے گی۔