سورة الفرقان - آیت 1

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بہت برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر فیصلہ کرنے والی (کتاب) اتاری، تاکہ وہ جہانوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

فرقان کے معنی: حق و باطل میں فرق کرنے والا، توحید و شرک اور عدل وظلم میں فرق کرنے والا۔ تبارک کے لغوی معنی: کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہو جانے کا نام برکت ہے اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔ علاوہ ازیں تبارک کے لفظ میں بلندی اور تقدس کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور یہ لفظ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا بیان فرماتا ہے تاکہ لوگوں پر اس کی بزرگی عیاں ہو جائے کہ اس نے اس پاک کلام کو اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے، اور اس آیت میں اس کا نام فرقان رکھا، اس لیے کہ یہ حق و باطل میں، ہدایت و گمراہی میں فرق کرنے والا ہے، اس سے برائی بھلائی میں اور حلال وحرام میں تمیز ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی یہ صفت بیان فرما کر جس پر قرآن اترا ان کی پاک صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ خاص اس کی عبادت میں لگے رہنے والے، اس کے مخلص بندے ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اس پاک کتاب کا آپ کی طرف اترنا اس لیے ہے کہ آپ تمام جہانوں کے آگاہ کرنے والے بن جائیں، ایسی کتاب جو سراسر حکمت وہدایت والی ہے۔ جو مفصل مبین اور محکم ہے۔ جو حکیم وحمید اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ آپ اس کی تبلیغ دنیا بھر میں کر دیں۔ ہر سرخ وسفید کو، ہر دور و نزدیک والے کو، اللہ کے عذابوں سے ڈرا دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عالم گیر ہے۔ اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لیے ہادی وراہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’میں تمام سرخ وسفید انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ اور فرمایا: ’’مجھے پانچ ایسی باتیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں۔(مسلم: ۵۲۱) ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نبی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا، لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری: ۴۳۷)