وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُل لَّا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور انھوں نے اللہ کی قسمیں کھائیں، اپنی پختہ قسمیں کہ اگر واقعی تو انھیں حکم دے تو وہ ہر صورت ضرور نکلیں گے، تو کہہ قسمیں نہ کھاؤ، جانی پہچانی ہوئی اطاعت (ہی کافی ہے)۔ بے شک اللہ اس سے خوب واقف ہے جو تم کرتے ہو۔
مکار منافق: یہاں اہل منافق کا حال بیان ہو رہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اپنی ایمانداری اور خیر خواہی جتاتے ہوئے قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے ہیں کہ ہم جہاد کے لیے تیار بیٹھے ہیں، بلکہ بے قرار ہیں، آپ کے حکم کی دیر ہے، حکم ہوتے ہی گھر بار، بال بچے چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ان سے کہہ دو قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کی حقیقت تو روشن ہے، دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ ہے۔ جتنی زبان مومن ہے اتنا ہی دل کافر ہے۔ یہ قسمیں صرف مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ تمہیں تو معقول اور پسندیدہ اطاعت کرنا چاہیے جس طرح مسلمان کرتے ہیں۔ نہ کہ قسمیں کھاؤ اور ڈینگیں مارو۔ یعنی اگر تم لوگ قسمیں کھا کر لوگوں کو اپنی بات کا یقین دلا بھی دو تب بھی اللہ کے سامنے تمہاری ایسی چالاکیاں اور فریب کاریاں کسی کام نہیں آ سکتیں۔ جو تمہاری تمام ظاہری اور باطنی خباثتوں سے پوری طرح باخبر ہے۔