اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے، جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا چمکتا ہوا تارا ہے، وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے: اس آیت میں کائنات کی سب سے بڑی سچائی اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں جس انداز سے اپنی ذات کا تعارف کروایا ہے اس سے ہمارے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔ اس ذات کو سمجھنا ہمارے لیے اس وجہ سے مشکل ہے کہ ہم اپنے حواس سے اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ نہ آنکھ اس کو دیکھ سکتی ہے نہ کان براہ راست اس کو سن سکتے ہیں نہ اپنے اس وجود سے ہم اس کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ معاملہ تو انسان کے دل، اس کے باطن اور اس کی روح کا ہے وہ روح جو اپنے رب کی ذات کو محسوس کرتی ہے۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے: اللہ آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو۔ طاق کیا ہے؟: اس سے مراد بندہ مومن ہے، یعنی ایمان والا مومن۔ چراغ کیا ہے؟: یعنی ایمان اور یقین، ایسے جیسے طاق میں رکھا ہوا چراغ۔ یعنی بندہ مومن کے اندر ایمان کا موجود ہونا۔ چراغ ایک فانوس ہو: یعنی بندہ مومن کا دل اور ایمان دل کے اندر رکھا ہوا۔ فانوس کو دل سے تشبیہ دی گئی ہے، فانوس کا حال یہ ہو جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا۔ یعنی ایمان آتا ہے تو دل اتنا چمک اُٹھتا ہے۔ جتنا اس میں یقین ہوتا ہے۔ دنیا کے چراغ ???? ہوتے ہیں۔ بجلی کا بلب، اس کی وولٹیج مقرر ہوتی ہے۔ لیکن بندہ مومن کے دل کے اندر جو ایمان ہے وہ ??? نہیں ہے۔ اس کی روشنی جتنا جی چاہے بڑھا لیں وہ بڑھتی چلی جائے گی اس کی کوئی حد نہیں۔ یہ بے حدو حساب ہے۔ قلب کے اندر اللہ تعالیٰ نے اتنی گنجائش رکھی ہے کہ جتنا بھی ایمان کوئی رکھنا چاہیے، جتنا بھی کوئی قبول کرنا چاہیے اس کے اندر اتنی جگہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ فانوس کیا ہے: فانوس شیشے کا بنا ہوا ہوتا ہے جس کے اندر سے ساری روشنیاں آر پار ہوتی ہیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دل کے اندر ایمان آئے اور دل کے اندر ہی رہ جائے۔ یہ ایمان آئے گا تو روشنی باہر نکلے گی، اور جتنی قوت کا ایمان ہو گا۔ اتنی ہی روشنی باہر نکلے گی گویا فانوس موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا ہوتا ہے۔ وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے ہو جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی: زیتون کا درخت ہر وقت دھوپ میں رہتا ہے۔ مشرقی اور مغربی رخ کے سائے اس درخت پر نہیں پڑتے اور ہمیشہ دھوپ میں رہنے والے ایسے درخت کا تیل عام درختوں کے تیل سے زیادہ لطیف ہوتا ہے۔ نیز اس میں یہ خاصیت ہے کہ اسے آگ لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آگ کے نزدیک ہونے سے ہی یہ بھڑک اُٹھتا ہے جیسا کہ آج کل پیٹرول میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ زیتون کے مبارک درخت کی مثال قرآن مجید کے لیے دی گئی کہ یہ جو ایمان ہے اس کا تیل قرآن ہے۔ قرآن مجید سے ایمان ملتا ہے اور روشن ہوتا ہے۔ نہ مشرقی نہ مغربی: یعنی کسی خاص سمت کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہر سمت، ہر طرف ہی اس کا تیل پہنچتا ہے۔ جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہے چاہے آگ اس کو نہ لگے: اس کا تیل ایسا ہے اور اس کی استعداد اتنی قوی ہے کہ بس قرآن کے ساتھ اس کا تعلق جڑنے کی دیر ہے۔ یعنی قرآن میں اتنی قوت ہے کہ ایک انسان کے اندر جب قرآن کا نور اور علم آتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ ابھی بھڑک اُٹھے گا، ابھی یہ چراغ خود سے خود آگ پکڑے گا۔ اگرچہ ارد گرد کا ماحول مخالف بھی ہو، لیکن اس کی شرط کیا ہے؟ اس کی شرط تیل ہے۔ پس تیل ملتا رہے یعنی مسلسل قرآن سے علم ملتا رہے۔ قرآن کی روشنی سے فیض ملتا رہے۔ زیتون کے مبارک درخت کا تیل: مراد قرآن کا فہم اور اس کی سمجھ ہے قرآن کا فہم حاصل کر کے بندہ مومن کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ اللہ کا کلام اور وحی کی روشنی جہاں کہیں بھی ہو تو ایمان آگے بڑھ کر اسے لے لیتا ہے۔ اس کا یقین ایسا ہے کہ پھر اس کی استعداد اتنی بڑھتی ہے کہ ہر جگہ سے کہیں سے بھی اسے ایمان ملے، بڑھ کر اس کو لے لیتا ہے۔ ایمان ایسا نور اور ایسی روشنی ہے جو چاروں اطراف کو روشن کرتی ہے کسی ایک سمت سے اس کا تعلق نہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہے۔ یعنی پہلے تو بندہ مومن کے دل میں ایمان آ جائے تو دل ایسے روشن ہو جاتا ہے، جیسے شیشے کا فانوس، قرآن سے تیل یعنی فہم اور سمجھ ملتی رہے تو انسان کے دل کے اندر نور آتا ہے اور جس وقت انسان کا دل روشن ہو جاتا ہے تو اس روشنی کی وجہ سے انسان کا دل اور یہ کائنات ایک ہو جاتی ہے، پھر انسان اسی طرح سے اطاعت کرتا ہے۔ جیسے یہ کائنات اللہ کی اطاعت کر رہی ہے، اور یہ مستقل غور و فکر، تدبر، اپنا جائزہ، محاسبہ اور کرنا ہے کہ پھر دل چمکے گا۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے راہنمائی فرماتا ہے: جس کے دل کے اندر طلب ہو گی، تڑپ ہو گی اور جو خود کوشش کرے گا۔ اس کی اللہ تعالیٰ راہنمائی فرماتا ہے اور جو خود ہدایت سے بھاگنا چاہے، اس کے لیے بھاگنے کے مواقع فراہم کر دیے جائیں گے۔ اور وہ لوگوں کو مثالوں سے سمجھاتا ہے: کیونکہ انسان کی عقل اس کے حواس براہ راست غیب کے پیچھے چھپی حقیقتوں کو نہیں دیکھ سکتے، اس لیے اللہ تعالیٰ قریب کی مثالوں سے سمجھاتے ہیں تاکہ بات سمجھ آ جائے۔ وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے: یعنی اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کس چیز کو کس مثال سے سمجھایا جائے اور اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتے ہیں کہ کون اس نعمت کو پا سکتا ہے اور کون نہیں پا سکتا۔ کیونکہ انسان کے پاس تھوڑا علم ہے اور علم دینے والی ذات کے پاس کلی علم ہے۔ الحمدللہ۔ (نگہت ہاشمی کے لیکچر سے ماخوذ) مسند احمد (۲/۴۱۲) کی ایک حدیث میں ہے کہ دلوں کی چار قسمیں ہیں: (۱) صاف اور روشن (۲) غلاف دار اور بندھا ہوا۔ (۳) الٹا اور اوندھا (۴) ایک طرف پھرا ہوا الٹا سیدھا۔ پہلا دل تو مومن کا دل ہے جو نورانی ہوتا ہے اور دوسرا دل کا فر کا دل ہے، اور تیسرا دل منافق کا دل ہے کہ اس نے جانا پھر جان پہچان کر منکر ہو گیا۔ چوتھا دل وہ ہے جس میں ایمان بھی ہے اور نفاق بھی ہے۔ ایمان کی مثال تو اس میں ترکاری کے درخت کی مانند ہے کہ اچھا پانی اسے بڑھا دیتا ہے اور اس میں نفاق کی مثال پھوڑے کی سی ہے کہ خون پیپ اسے ابھار دیتا ہے۔ اب ان میں سے جو غالب آ گیا وہ اس دل پر چھا جاتا ہے۔