وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
دولت مند افراد سے خطاب: تم میں سے جو کشادہ روزی والے، صاحب مقدرت اور صدقہ و احسان کرنے والے ہیں انھیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہیے کہ وہ اپنے قرابت داروں، مسکینوں اور مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں۔ حضرت مسطح جو واقعہ افک میں ملوث ہو گئے تھے فقرائے مہاجرین میں سے تھے۔ رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد تھے، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے کفیل اور معاش کے ذمہ دار تھے۔ جب یہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف مہم میں شریک ہو گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس بات کا سخت صدمہ پہنچا جو ایک فطری امر تھا۔ چنانچہ نزول براء ت کے بعد غصے میں انھوں نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ قسم اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی تاہم مقام صدیقیت اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا اس لیے یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی جس میں بڑے پیار سے ان کے اس عاجلانہ بشری اقدام پر انھیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اس طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہ انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بے ساختہ پیکار اٹھے ’’کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے۔‘‘ (ابن کثیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں۔ (بخاری: ۷۳۷۷) دوسری جگہ فرمایا: جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری: ۷۳۷۶)