لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ
کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔
اخلاق و آداب کی تعلیم: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی ہدایات و احکام دئیے ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ خیز اور فتنہ پرور طوفانوں کا بخیر و خوبی مقابلہ کر سکیں وہ ہدایات یہ ہیں: (۱) جب اس بہتان کا چرچہ عام ہونے لگا تو ایک دن سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہنے لگے: لوگ بکواس کرتے ہیں تم خود ہی بتاؤ کہ تم ایسا کام کر سکتی ہو؟ وہ کہنے لگی: ہرگز نہیں۔ پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تجھ سے بڑھ کر پاک صاف اور طاہر و مطہر ہیں ان کی نسبت ایسا بے وجہ گمان کیوں کیا جائے اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں خود ہوتا تو ایسا خیال تک نہ کر سکتا تھا صفوان تو مجھ سے بہتر مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کا اندازِ فکر یہی تھا۔