الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زانی سے زناکاری پر وہی عورت رضامند ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اس جیسا بدچلن یا مشرک ہو۔ جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو۔ مومنوں پر زنا کاری حرام ہے اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا بھی منع اور حرام ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَ لَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَانٍ﴾ (النساء: ۲۵) یعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہیے ان میں یہ تین اوصاف ہونے چاہئیں: (۱) وہ پاک دامن ہوں۔ (۲) نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں۔ (۳) اور وہ بدکار بھی نہ ہوں۔ یہی تینوں اوصاف مردوں میں بھی ہونے چاہئیں اسی لیے امام احمد رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے۔ اسی طرح بھولی بھالی پاک دامن عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرے کیونکہ فرمان خداوندی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کر دیا گیا ہے۔ (ابن کثیر: ۳/ ۵۸۲، مسند احمد: ۲/ ۱۵۹)