بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
سورۂ نور کے نزول کا پس منظر: سورۂ نور ۴ ہجری کے نصف آخر میں سورہ احزاب کے کئی مہینے بعد نازل ہوئی۔ غزوہ خندق کے موقعہ پر اتحادی کافروں کا لشکر دس ہزار کے لگ بھگ تھا اور یہ لشکر ایک مہینے تک سر مارنے کے بعد آخرکار ناکام ہو کر واپس چلا گیا تھا اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’آج کے بعد قریش ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے بلکہ اب ہم ان پر حملہ آور ہوا کریں گے۔‘‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب اسلام اور اسلامی ریاست اتنی مضبوط اور اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی تھی کہ کفر کی تمام قوتیں جس میں مشرکین مکہ، دوسرے مشرک عرب قبائل اور مدینہ کے یہود و منافقین سب شامل تھے، ان میں اب اتنی سکت باقی نہ رہ گئی تھی کہ سب مل کر بھی مدینہ پر حملہ آور ہو سکیں۔ میدان جنگ میں مات کھانے کے بعد ان لوگوں نے یہ حربہ اختیار کیا کہ جس طرح بن پڑے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر کے ان میں پھوٹ ڈال کر اس طاقت کو کمزور بنا دیا جائے۔ منافق چونکہ مسلمانوں کے اندر گھسے ہوئے تھے اس لیے وہ اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے۔ عبداللہ بن ابی نے جو رئیس المنافقین تھا اسی سازش کے تحت دو کارنامے سرانجام دئیے۔ اتفاق سے انصار و مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہو گیا تو عبداللہ بن ابی نے اس واقعہ کو اتنی ہوا دی اور جاہلی حمیت سے کام لے کر انصار اور بالخصوص منافقین کو اتنا برافروختہ کر دیا کہ قریب تھا کہ ان میں لڑائی چھڑ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بابت اطلاع ہوئی تو آپ نے فوراً موقع پر پہنچ کر حالات پر قابو پالیا۔ دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا دی اور یہ واقعہ ’’افک‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعہ کا منافقوں نے اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈا سے متاثر ہو گئے۔ پورا مہینہ یہ افواہیں پھیلتی رہیں اور اتفاق کی بات ہے کہ وحی بھی نازل نہیں ہو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پورے مسئلہ میں ایک مہینہ تک پر شان رہے ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے سورہ نور نازل فرمائی جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی واشگاف الفاظ میں برئیت فرمائی۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے لیے نہایت مفید احکام اور پند و نصائح نازل فرمائے۔