سورة المؤمنون - آیت 101

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب صور میں پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان نہ کوئی رشتے ہوں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قیامت کے دن سب رشتہ داریاں بھول جائیں گے: جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو یہی دن مردوں کا اپنی قبروں سے جی کر اٹھنے اور اللہ کے حضور حاضر کیے جانے کا دن ہو گا۔ اسی دن کو قیامت کا دن کہا جاتا ہے۔ یہ دن چونکہ ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار سال کا ہو گا لہٰذا اس مدت میں انسان کو کئی قسم کے حالات و واقعات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس آیت میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ زندہ ہونے کے بعد کی ابتدائی کیفیت ہے اس وقت دہشت اور ہولناکی اس قدر زیادہ ہو گی کہ ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہو گی اس دن نہ تو رشتے ناتے باقی رہیں گے نہ کوئی کسی سے پوچھے گا نہ باپ کو اولاد پر شفقت ہو گی نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی۔ عجب آپا دھاپی ہو گی۔ ہر آدمی اپنے حقیقی رشتہ داروں سے بھی الگ رہنے اور دور بھاگنے کی کوشش کرے گا نہ کچھ پوچھے گا بلکہ آنکھ پھیر لے گا جیسا کہ قرآن میں ہے کہ ’’اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا۔‘‘ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا۔ پھر ایک منادی ندا کرے گا کہ جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمے ہو وہ آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے تو اگرچہ کسی کا کوئی حق اپنے باپ کے ذمے یا اپنی اولاد کے ذمے یا اپنی بیوی کے ذمے ہو گاوہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کر دے گا۔ (تفسیر طبری)