قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ
تو کہہ اے میرے رب! اگر تو کبھی مجھے ضرور ہی وہ (عذاب) دکھائے جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں۔
اس آیت میں اگرچہ خطاب بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن یہ ہدایت عام مومنوں کے لیے ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر یہ انداز اختیار کیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ مشرکین اللہ کے حق میں جس طرح گستاخیاں کر رہے ہیں عین ممکن ہے کہ ان پر کوئی آفت آ کر رہے۔ لہٰذا مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایسے حالات میں وہ اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اگر ظالموں پر عذاب آئے تو اللہ انھیں اس عذاب سے بچانے کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے: ((وَ اِذَا اَرَدْتَّ بِقَوْمٍ فِتْنَۃً فَتَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ)) (ترمذی: ۳۲۳۵، مسند احمد: ۵/ ۲۴۳) ’’اے اللہ جب تو کسی قوم پر عذاب یا آزمائش بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے۔‘‘