سورة المؤمنون - آیت 62

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی وسعت کے مطابق اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آسان شریعت: اللہ تعالیٰ نے شریعت آسان رکھی ہے۔ ایسے احکام نہیں دئیے جو انسان كی طاقت سے خارج ہوں۔ شرعی احکام بالعموم مسلمانوں کی اکثریت کے لیے اور عام حالات میں قابل عمل ہوتے ہیں۔ جب حالات بدل جائیں تو احکام میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ مثلاً بیماروں یا معذوروں کو رعایت یا رخصت دی جاتی ہے۔ نابالغ اور مجنوں وغیرہ سے شرعی احکام ویسے ہی ساقط کر دئیے جاتے ہیں۔ ہر بالغ و عاقل مسلمان کو پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اور نماز سے پہلے وضو یا طہارت بھی ضروری ہے۔ بیمار کو اگر وضو سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کر سکتا ہے۔ سفر یا خوف کی حالت میں نماز قصر بھی کر سکتا ہے۔ بارش یا معقول عذر کی وجہ سے مسجد نہیں جا سکتا تو گھر پر نماز ادا کر سکتا ہے۔ بیمار بیٹھ کر، لیٹ کر، اشارہ سے بھی نماز ادا کر سکتا ہے۔ ایسا بیمار یا انتہائی بوڑھا آدمی جو مسجد تک جانے کی ہمت نہیں رکھتا مستقل طور پر اپنے گھر میں نماز ادا کر سکتا ہے یہی اس جملہ کا مطلب ہے: ’’ہم کسی شخص کو اس کے مقدور سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔‘‘ اتنی مراعات کے باوجود اگر کوئی شخص عمداً نماز ادا نہیں کرتا تو وہ کافر ہو جائے گا اور اگر نماز کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔ اعمال کے اندراج کا طریقہ کار: یعنی ہر انسان کے اعمال، افعال، اقوال حتیٰ کہ دل کے خیالات اور دل میں پیدا ہونے والے وساوس اور ارادے بھی ساتھ کے ساتھ ریکارڈ ہو رہے ہیں قرآن کی تصریح کے مطابق یہ دو معزز فرشتے ہیں جن میں ایک انسان کے دائیں اور دوسرا بائیں طرف ہوتا ہے، پھر ان کی ذمہ داری بھی فجر اور عصر کے وقت بدلتی رہتی ہے۔ پھر قیامت کے دن وہ ان کے اعمال کا حساب لے گا جو سب کے سب کتابی صورت میں لکھے ہوئے موجود ہوں گے۔ اس دن کسی طرح کا ظلم کسی پر نہ کیا جائے گا۔ کوئی نیکی کم نہ ہو گی ہاں اکثر مومنوں کی برائیاں معاف کر دی جائیں گی۔ یعنی یہ بات ان کے ذہن میں آتی ہی نہیں کہ ان کی پوری ہسٹری شیٹ ساتھ ہی ساتھ تیار ہو رہی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے دنیا کے کاموں میں ہی ایسے منہمک اور مگن ہیں کہ انھیں اس نامۂ اعمال اور اس کی بنا پر آخرت کی باز پرس کا خیال تک نہیں آتا۔