ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ
پھر ہم نے اپنے رسول پے درپے بھیجے۔ جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو ہم نے ان کے بعض کو بعض کے پیچھے چلتا کیا اور انھیں کہانیاں بنا دیا۔ سو دوری ہو ان لوگوں کے لیے جو ایمان نہیں لاتے۔
تمام امتوں کی اکثریت نبیوں کی منکر رہی۔ جیسے کہ فرمایا: ﴿مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ﴾ (یٰسین: ۳۰) ’’افسوس ہے بندوں پر کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انھوں نے نہ اڑائی ہو۔‘‘ ہم نے یکے بعد دیگرے سب کو غارت اور فنا کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنۢ بَعْدِ نُوْحٍ﴾(بنی اسرائیل: ۱۷) ’’ہم نے نوح( علیہ السلام ) کے بعد بھی بہت سی قومیں ہلاک کیں۔‘‘ انھیں ہم نے پرانے افسانے بنا دیا۔ وہ نیست و نابود ہو گئے اور قصے ان کے باقی رہ گئے جو بعد میں آنے والے لوگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔ بے ایمانوں کے لیے رحمت سے دوری ہے۔