سورة المؤمنون - آیت 35

أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُم مُّخْرَجُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا یہ تمھیں وعدہ دیتا ہے کہ بے شک جب تم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں بن گئے تو تم یقیناً نکالے جانے والے ہو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آخرت کا انکار کرنے والوں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ چونکہ کوئی بھی مرا ہوا انسان آج تک دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا، لہٰذا ہم کیسے مان لیں کہ مرنے اور مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ گویا ان کے انکار کی اصل بنیاد ان کا اپنا تجربہ یا مشاہدہ ہوتا ہے۔ قوم عاد کے نزدیک سیدنا ہود علیہ السلام کا اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ تھا کہ ’’میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ یا یہ کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور دوبارہ پیدا کرے گا اور تم سے تمہارے اعمال کا مواخذہ کرے گا‘‘ اور یہ دونوں باتیں ہم ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔