وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ
اور اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جنھوں نے کفر کیا اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہم نے انھیں دنیا کی زندگی میں خوشحال رکھا تھا، کہا یہ نہیں ہے مگر تمھارے جیسا ایک بشر، جو اس میں سے کھاتا ہے جس میں سے تم کھاتے ہو اور اس میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔
یہ سرداران قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کی تکذیب میں سرگرم رہے ہیں جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انہی کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیوی آسائشوں کی فراوانی، یہ دو بنیادی سبب تھے اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے، آج بھی اہل باطل انہی اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے۔ آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔