وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔
امانت کی قسمیں اور ان کی نگہداشت: امانت سے مراد ہر وہ امانت ہے جو اللہ کی طرف سے یا معاشرہ کی طرف سے یا کسی فرد کی طرف سے کسی شخص کے سپرد کی گئی ہو خواہ یہ امانت منصب سے تعلق رکھتی ہو یا اقوال سے یا اموال سے۔ ان سب کی پوری پوری نگہداشت ضروری ہے۔ چنانچہ چاہے کوئی عہد اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو یا اللہ تعالیٰ کے بندوں سے کیا گیا ہو۔ یا یہ آپس کا قول وقرار ہو خواہ یہ معاہدہ بیع یا نکاح سے متعلق ہو کہ ان کو پورا کرنا ضروری ہے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ خلافی دونوں ایسے جرم ہیں جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی علامتیں قرار دیا ہے۔ (بخاری: ۳۳، مسلم: ۵۹) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’۔منافق کی تین نشانیاں ہیں: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۲)وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔ (۳) اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے۔ (بخاری، کتاب الایمان)۔ (بخاری: ۳۳) نمازوں کی محافظت: ایمان لا کر کامیاب ہونے والوں کی صفات کی ابتدا بھی نماز سے کی گئی اور اختتام بھی نماز پر ہوا۔ اس سے نماز کی دوسرے خصائل پر اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ پہلی آیت میں نماز میں خشوع کا ذکر ہے۔ اور اس آخری آیت میں سب نمازوں کی حفاظت کا ذکر ہے، حفاظت سے مراد نمازوں کو مقررہ اوقات پر بروقت ادا کرنا اور ہمیشہ ادا کرنا، تسلی سے نماز ادا کرنا، اس کے پورے ارکان بجا لانا، یعنی جسم کا، کپڑوں کا اور جگہ کا پاک ہونا، پھر وضو، طہارت پوری طرح کرنا وغیرہ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو وقت پر ادا کرنا، پوچھا گیا پھر؟ فرمایا ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا، پوچھا گیا پھر؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری: ۵۹۷۰، مسلم: ۸۵) ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’سیدھے سیدھے رہو، تم ہرگز احاطہ نہ کر سکو گے جان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین عمل نماز ہے۔ دیکھو وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کر سکتا ہے۔ (ابن ماجہ: ۲۷۷) ان سب صفات کو بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ یہی لوگ جنت الفردوس کے دائمی وارث ہوں گے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو، وہ سب سے اعلیٰ اور اوسط جنت ہے۔ وہیں سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں اسی کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ (بخاری: ۲۷۹۰) ان آیات کے نزول کے وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی مندرجہ ذیل حدیث سے اس کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے آس پاس شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی آواز آنے لگتی تھی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو تھوڑی ہی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ کر کے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اے اللہ! ہمیں زیادہ کر، تھوڑے نہ رہنے دے، ہمیں عزت عطا فرما ذلیل نہ رہنے دے، ہمیں عطا کر اور محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر مقدم کر، دوسروں کو ہم پر مقدم نہ رکھ، ہمیں خوش کر دے اور ہم سے خوش ہو جا‘‘، اس دعا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرے گا، جنت میں داخل ہوگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ، سے لے کر دس آیات پڑھیں۔ (ترمذی: ۳۱۷۳)