وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور تاکہ وہ لوگ جنھیں علم دیا گیا ہے، جان لیں کہ بے شک وہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لے آئیں، پس ان کے دل اس کے لیے عاجز ہوجائیں اور بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے یقیناً سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔
ایمان والوں کو اللہ سیدھی راہ دکھاتا ہے: یعنی ایمان لانے والے فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں بات تو فی الواقع وحی الٰہی ہے یا ہو سکتی ہے، اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ قرآن شریف میں بتوں کی تعریف مذکور ہو یا یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں تو ایمان والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ رہا مشرکوں کا سجدہ ریز ہونا تو یہ قرآن کی اپنی تاثیر ہے۔ اسی بنا پر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر اور قرآن کو جادو کہا کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں پر پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ اونچی آواز میں قرآن نہ پڑھیں کہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی قرآن کریم کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔