لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہوچکی، پھر جو کوئی باطل معبود کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جسے کسی صورت ٹوٹنا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
شان نزول: انصار کے کچھ نوجوان یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے پھر جب یہ انصار مسلمان ہوگئے تو انھوں نے اپنی اولاد کو بھی جو یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ آیت حکم کے اعتبارسے عام ہے اور کسی پر بھی اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیاجائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے۔ اب ہر شخص دین کو اختیار کرنے کی حد تک تو آزاد ہے چاہے تو قبول کرلے چاہے تو رد کردے۔ مگر اسلام قبول کرنے کے بعد اسے اختیار نہیں رہتا کہ وہ دین سے انحراف کرے۔ لہٰذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے روایتی قسم کا مذہب نہیں۔ اور اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت نہیں دی جاسکتی یہ جبرواکراہ نہیں بلکہ مرتد کا قتل عین اسی طرح انصاف ہے جس طرح قتل و غارت اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے۔ ارتداد کی سزا: کا مقصد نظریاتی تحفظ ہے۔ اخلاقی جرائم پر سزا: کا مقصد ملک کو شروفساد سے بچانا ہے۔ طاغوت کیا ہے: ہر وہ باطل قوت جو اللہ کے مقابلہ میں اپنا حکم لوگوں سے منوائے یا لوگ اللہ کے مقابلہ میں اس کے احکام تسلیم کرنے لگیں۔ مثال کے طور پر لسانی یا علاقائی تحریکیں اورا ن کے چلانے والے كو یہ تحریكیں اسلام کی رو سے ناجائز ہیں اور یہ سب طاغوت ہیں ۔ اسی طرح شیطان بھی طاغوت ہے اور ہر انسان کا اپنا نفس بھی طاغوت ہوسکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی فرمانبرداری سے انحراف کررہا ہو۔ مضبوط حلقہ کو تھامنا سے مراد: پوری شریعت اور اس کا نظام ہے جو انسان کو ہر طرح کی گمراہی سے بچا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے چمٹا رہے اور ادھر ادھر جانے والی پگڈنڈیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے ایسا شخص یقیناً کامیاب ہوگا۔