هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ
یہ دو جھگڑنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جاچکے، ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔
یعنی لڑائی کرنے اور جھگڑے والے دو فریقوں میں سے ایک تو اللہ کے فرمانبرداوں اور مسلمانوں کا ہے اور دوسرا کافروں کا ان میں سب گروہ یعنی یہودی، عیسائی، صابی، مجوسی، مشرکین کے علاوہ اور لوگ بھی جن کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے۔ جیسے ہندو، سکھ، بدھ مت، اللہ کی ہستی کے منکر یعنی نیچری اور دہریے وغیرہ سب آگئے۔ ان دونوں فریقوں میں باعث نزاع مسئلہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہیں۔ فریق اول تو اللہ کی صفات بالکل اسی طرح تسلیم کرتا ہے جس طرح اللہ نے خود بیان فرمائی ہیں۔ پھر وہ اللہ کا فرماں بردار اور سجدہ ریز بھی رہتا ہے۔ دوسرے فریق میں ہر طرح کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں اور کبھی یہ فریق اول کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ بھی کر لیتے ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آ جاتے ہیں۔ قیس بن عباد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن میں سب سے پہلے پروردگار کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اپنا مقدمہ پیش کروں گا۔‘‘ قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے سلسلہ میں اتری جو بدر کے دن مبازرت کے لیے نکلے تھے، یعنی مسلمانوں کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ، حمزہ رضی اللہ عنہ، اور عبدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور کافروں کی طرف سے شعبہ بن ربیعہ عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ (بخاری: ۳۹۶۶) اہل دوزخ کا لباس، طعام اور دوسری سزائیں: یعنی فریق دوم کے لیے جنھوں نے کفر اور سرکشی کی راہ اختیار کی، ان کے لباس بھی کسی آتش گیر مادہ سے بنے ہوں گے ارشاد ہے: ﴿سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ﴾ (ابراہیم: ۵۰) ’’ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر بھی چڑھی ہوگی۔‘‘ یہ لباس بھڑک کر ان کے جسموں سے چمٹ جائے گا، اور سر کے اوپر سے کھولتا ہوا جو پانی ڈالا جائے گا وہ اس آگ کو بجھائے گا نہیں بلکہ آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بن جائے گا۔ اس سے ان کے چمڑے گل کر گر پڑیں گے تو فوراً نئی جلد پیدا کر دی جائے گی تاکہ ان کے عذاب میں کمی نہ ہو۔