اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔
آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بیان کی گئی ہے۔ جس کی نظیر نہیں ملتی اسی لیے اس آیت کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا۔ اختیار اللہ کا ہی ہے۔ کسی انسان کا کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں سب کام جو بھی کوئی کرتا ہے وہ بھی اللہ کے حکم کا پابند ہے۔ اس کی ملکیت کی کوئی حد نہیں، کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں، کوئی اس میں شریک نہیں، اس کی ملکیت کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ! شکر تیرے لیے ہے، تو زمین و آسمان کا رب ہے، قائم رکھنے والا ہے جو کچھ ان میں ہے اور شکر تیرے لیے کہ تو زمین و آسمان کا نور ہے تیری بات سچی، وعدہ سچ، جنت حق، دوزخ حق، قیامت حق، تیری ملاقات حق۔ اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کردیا۔ تجھ پر ایمان لایا بھروسہ کیا، رجوع کیا، تیری مدد کے ساتھ مقابلہ کیا تجھی سے انصاف کا طلبگا ر ہوں، تو میری مغفرت فرمانا۔ جو گناہ پہلے یا بعد میں چھپ کر یا اعلانیہ کیے تو ہی میرا معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (ابوداؤد: ۷۷۱۔ ترمذی: ۳۴۱۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص فرض نماز كے بعد آیت الكرسی پڑھے اسے جنت میں داخلے سے سوائے موت كے كوئی چیز نہیں روكتی۔ (عمل الیوم واللیلة: ۱۰۰)… اور ابو منذر رضی اللہ عنہ كی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت الكرسی كو قرآن كی سب سے عظمت والی سورت بیان كیا ہے۔ (مسلم: ۸۱۰) آیت الکرسی معرفت دیتی ہے، پہچان دیتی ہے۔ مالک کے ساتھ رشتہ قائم کرنا سکھاتی ہے۔ یقین ہو تو زندگی بدلتی ہے: مسلمان کا عقیدہ ہے ایک یہ زندگی ہے اور ایک دوسری زندگی جو موت کے بعد آئے گی اور ہمیشہ رہے گی پھروہ ختم نہیں ہوگی۔ سورۃ فاتحہ میں یہ تصور دیا گیا کہ اللہ جزاء کے دن کا مالک ہے پھر دنیا کی ملکیت کے بارے میں انسان کا شعور بدل جاتا ہے۔ پھر وہ آخرت کے لیے جیتا ہے۔ پھر لالچ، بغض، حرص چھوڑ دیتا ہے، قناعت، سکون، اطمینان ملتا ہے، گھٹن جلن سے بچ جاتا ہے۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ اس حقیقت کی روشنی میں سارے تصورات رد ہوجاتے ہیں رب رب ہے رب پر ایمان لانے والا اس کی ٹھنڈی چھا ؤں میں آجاتا ہے۔ حیی و قیوم ہے: ازل سے زندہ ہے اور ابد تک رہے گا وہ قائم بالذات ہے اور دوسری تمام اشیاء کو قائم رکھنے والا ہے۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند۔ اونگھ نیند كا ابتدائی درجہ ہے اور نیند غالب آکر بیہوش بنادیتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اونگھ یا نیند آجائے تو کائنات کا سارے کا سارا نظام آن کی آن میں درہم برہم ہوجائے۔ الا باذنہ یعنی اجازت کے بغیر: فرما کر سفارش کی مکمل نفی نہیں کی بلکہ چند شرائط عائد کرکے سفارش پر اعتماد کے عقیدہ کو یکسر ختم کردیا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ اللہ جسے چاہے گا اسے ہی سفارش کی اجازت دے گا اور جس شخص کے حق میں چاہے گا اسی کے لیے اجازت دے گا۔ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے اگلے پچھلے ماضی اور مستقبل کے: سب حالات سے پوری طرح واقف ہے جبکہ کوئی اور اللہ کے علم کی وسعت کی گرد کو بھی نہیں پاسکتا۔ جو اپنی ذات کا بھی پورا علم نہ رکھتا ہو وہ دوسروں کے متعلق کیسے جان سکتا ہے۔ انسان کو جو علم ملتا ہے وہ بھی اللہ کی مرضی سے ہے۔ انسان اس کی مرضی کے بغیر اس کائنات میں سے کوئی علم حاصل نہیں کرسکتا۔ نیوٹن نے دیکھا: سیب زمین پر گرا۔ اس کے ذہن نے ایک اصول پالیا تو یہ اللہ کی اجازت سے ہی ہوا۔ دنیا کی تمام ایجادات، تحقیقات انسان کا علم نہیں، یہ اللہ کی طرف سے اس کی چاہت تھی اس نے یہ علم لوگوں کو دے دیا۔ آیت الکرسی معرفت الٰہی کا خزانہ ہے: فرمایا اس کی کرسی تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ پھر کوئی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جاسکتا ہے۔ اللہ کو زمین و آسمان کی حفاظت تھکاتی نہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کی تشبیہات سے ماورا ہے۔ عظمت والی بھی ہے گویا ان جملوں میں اللہ تعالیٰ کی تمجید، تقدیس، تسبیح سب پہلو ؤں كا بیان ہے ۔ یہ آیت ایک جامع آیت ہے۔ شفاعت کبریٰ: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنوں کو اکھٹا کرے گا جب سب لوگ سورج كی گرمی سے پریشان ہوں گے اور کہیں گے ہم اپنے رب کے حضور کس كی سفارش پہنچائیں۔ حضرت آدم کے پاس جائیں گے گناہ ممنوعہ درخت سے کھانا حضرت نوح اپنے بیٹے کے لیے سفارش کی تھی۔ ابراہیم بھی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں۔ موسیٰ کے پاس جا ؤ تورات دی، کلام کیا خطا! میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ عیسیٰ کے پاس جا ؤ وہ کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا ؤ جن کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں آپ جائیں گے اللہ کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑیں گے پھر جب تک اللہ چاہے گا آپ سجدہ میں پڑے رہیں گے پھر اللہ حکم دے گا کہ سر اٹھا ؤ سوال کرو تمہیں دیا جائے گا۔ بات کرو سنی جائے گی سفارش کرو قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں سر اٹھا ؤنگا اور اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف کرونگا جو اس وقت مجھے سکھائی جائے گی اور ایک حد تک سفارش کی جائے گی۔میں بار بار سجدے میں جا ؤنگا اور اللہ تعالیٰ بار بار سجدے سے اٹھائیں گے۔ پھر آخر میں عرض کریں گے کہ اب تو قرآن کے مطابق وہی لوگ رہ جائیں گے جو دوزخ میں جانے کے لائق ہیں۔ حضرت انس نے بتایا کہ آخر میں دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال لیا جائے گا جس نے ایک دفعہ بھی سچے دل سے لاالہ الا اللہ کہا ہوگا اور رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ (بخاری: ۷۵۱۰)