وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ
اور نوح کو بھی جب اس نے اس سے پہلے پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی، پھر اسے اور اس کے گھر والوں کو بہت بڑی گھبراہٹ سے بچا لیا۔
نوح کی دعا: سیدنا نوح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ عراق میں دریائے دجلہ وفرات کا درمیانی علاقہ تھا۔ آپ علیہ السلام پہلے نبی تھے جنھوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا۔ آپ کی بعثت سے پہلے آپ کی قوم بت پرستی میں مبتلا ہو چکی تھی اور تاریخ انسانی میں یہ پہلی قوم تھی جس نے بُت پوجنا شروع کیے تھے آپ علیہ السلام کی قوم نہایت ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئی۔ ساڑھے نو سو سال آپ انھیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے۔ مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی آپ علیہ السلام پر ایمان نہ لایا۔ آپ کے اتنے طویل عرصہ کے لیے صبر وبرداشت کی داد دینا پڑتی ہے۔ ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے نہایت مغموم لہجہ میں اللہ سے دعا کی۔ ﴿فَدَعَا رَبَّهٗ اَنِّيْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ﴾ (القمر: ۱۰) ’’اے میرے پروردگار میں ان لوگوں سے دب گیا ہوں۔ سو اب تو ہی ان سے میرا بدلہ لے۔‘‘ اور ایک دفعہ ان کی ہٹ دھرمی سے نہایت مایوس ہو کر بری دعاکی۔ پروردگار! زمین پر کافروں کا کوئی بھی گھرانہ باقی نہ رہے۔ کیونکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاجر اور کافر ہی ہوگی جس سے ایمان لانے کی توقع نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اس وقت روئے زمین پر یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا اللہ تعالیٰ نے ایساطوفان بھیجا جس میں تمام کافر ڈوب کر مر گئے۔ اور نوح علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو کشتی میں سوارکرکے بچا لیا۔