أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
کیا تو نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا، جب انھوں نے اپنے ایک نبی سے کہا ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر کہ ہم اللہ کے راستے میں لڑیں۔ اس نے کہا یقیناً تم قریب ہو کہ اگر تم پر لڑنا فرض کردیا جائے تو تم نہ لڑو۔ انھوں نے کہا اور ہمیں کیا ہے کہ ہم اللہ کے راستے میں نہ لڑیں، حالانکہ ہمیں ہمارے گھروں اور ہمارے بیٹوں سے نکال دیا گیا ہے۔ پھر جب ان پر لڑنا فرض کردیا گیا تو ان میں سے بہت تھوڑے لوگوں کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔
بنی اسرائیل میں یہ دستور رہا ہے کہ ان کے حکمران بھی انبیاء ہی ہوا کرتے تھے۔ انھیں کے پاس مقدمات کے فیصلے ہوتےتھے اور انہی کی سرکردگی میں جہاد کیا جاتا تھا۔ ابن کثیر اور دیگر مفسرین نے اس آیت كی تفسیر میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ عرصہ تک تو ٹھیک رہے پھر ان میں انحراف آگیا اور انھوں نے دین میں بدعات ایجاد کرلیں۔ حتیٰ کہ بتوں کی پوجا شروع کردی۔ انبیاء ان کوروکتے رہے لیکن یہ شرک سے باز نہ آئے اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنھوں نے ان کے علاقے بھی ان سے چھین لیے اور ان كی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنالیا۔ ان میں نبوت کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا بالآخر بعض لوگوں کی دعا ؤں سے سیموئیل نبی پیدا ہوئے جنھوں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انھوں نے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں۔ حقیقتاً یہ مطالبہ محض جہاد سے فرار کی ایک صورت تھی جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتی تھی جسے انھوں نے اس رنگ میں پیش کیا کہ تم بوڑھے ہوگئے ہو اور ہمیں ایک نوجوان قائد کی ضرورت ہے۔ ان کے نبی سیموئیل کو چونکہ اصل مرض کا علم تھا، لہٰذا اس نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر بادشاہ مقرر کردیا جائے تو پھر تو جہاد سے راہ فرار اختیار نہیں کرو گے جس کا انھوں نے یقین دلایا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ لیکن جب جہاد فرض ہو اتو وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے کیے ہوئے عہد سے پھرنے لگے۔