سورة الأنبياء - آیت 34

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مرجائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کفار کی پریشانی: جب کفار مکہ کے ظلم و ستم اور چیرہ دستیوں سے تنگ آکر اسّی کے قریب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تو قریش مکہ کے سب گھروں میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ مشکل ہی سے کوئی گھرانہ ایسا بچا رہ گیا ہوگا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو۔ اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے گھروں کی بربادی کا باعث صرف یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، لہٰذا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ شخص (نعوذ باللہ) مر جائے تو ہمارے گھر پھر سے آباد ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جتنے لوگ ہوئے سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے۔ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ہم کنار ہونے والے ہیں۔ کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مر جاؤ تو کیا یہ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔ ایسا تو محض ناممکن ہے دنیا میں تو چل چلاؤ لگا ہوا ہے کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں کوئی آگے ہے کوئی پیچھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو قبض کیا تو آپ کا سر اقدس میری گود میں تھا۔ (بخاری: ۴۴۴۶)