وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
رزق کا وسیع تر مفہوم: یہاں رزق سے مراد صرف کھانے، پینے کی چیزیں ہی نہیں، بلکہ رزق کا لفظ اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور اس لفظ کا اطلاق ہر اس خدا داد نعمت پر ہوتا ہے۔ جوجسمانی یا روحانی اعتبار سے انسان کی تربیت کا باعث بن سکے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو قرآن کریم، منصب رسالت، فتوحات عظیمہ اور آخرت کے اعلیٰ ترین مراتب عطا فرمائے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اس چند روزہ سازو سامان کی کیا حقیقت ہے۔ لہٰذا ان کفار کی دنیوی زینت اور ٹھاٹھ باٹھ کی طرف نہ دیکھو یہ صرف ان کی آزمایش کے لیے انھیں یہاں ملی ہیں۔ کہ دیکھیں شکر و تواضع کرتے ہیں یا نا شکری اور تکبر کرتے ہیں۔ حدیث ایلاء میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سروسامانی کا یہ عالم کہ گھر میں دو چمڑے کی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عمر کیا بات ہے روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یارسول اللہ! قیصر و کسریٰ کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے؟ فرمایا عمر! کیا تم اب تک شک میں ہو یہ وہ لوگ ہیں جن کو آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں یعنی آخرت میں ان کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ (بخاری: ۲۴۶۸، مسلم: ۱۴۷۹)