قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا
کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔
یہ قیامت کے دن اندھا بنا کر اُٹھایا جائے گا۔ سوائے جہنم کے اسے کوئی چیز نظر نہ آئے گی۔ نابینا ہوگا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا ارشاد ہے: ﴿وَ نَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰى وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّ بُكْمًا وَّ صُمًّا مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا﴾(بنی اسرائیل: ۹۷) ’’ہم قیامت کے دن انھیں اوندھے منہ، اندھے گونگے، بہرے بناکر حشر میں لے جائیں گے، ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے۔ جب کبھی وہ بجھنے لگے گی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے۔‘‘ وہ کہے گا کہ میں تو دنیا میں بینا تھا، ہر چیز کو دیکھ سکتا تھا آج مجھے اندھا بنا کر کیوں اُٹھایا جا رہا ہے۔ جواب دیا گیا کہ دنیا میں تو میری آیات دیکھنے سے اندھا بنارہا۔ آنکھیں عطا کرنے کا مقصد صرف یہی نہیں تھا کہ تو اپنے مطلب کی چیزیں دیکھے بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ تو اللہ کی آیات کو دیکھے۔ لہٰذا تیرے اس فعل کا نتیجہ اسی شکل میں تیرے سامنے آیا ہے۔ تو اب تعجب کیوں کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائے حشر کا ذکر ہے۔ بعد میں اس کی آنکھیں کھول دی جائیں گی تو وہ دوزخ اور احوال محشر کا ٹھیک ٹھیک معائنہ کر سکے گا۔