ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اس پر توجہ فرمائی اور ہدایت دی۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ آدم انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے، اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے لیکن آخر کار پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کی۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کر لیا۔ (ابن کثیر: ۳/ ۴۳۰) اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی۔ اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا۔ اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کر لیا، بتاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی؟ جواب دیا آپ کی پیدائش سے چالیس سال پہلے، پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا۔ کہا ہاں۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امرکا الزام کیوں دیتے ہو؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔(مسلم: ۲۶۵۲) موسیٰ علیہ السلام کا الزام یہ تھا کہ آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انھیں مشقت میں ڈال دیا۔ (حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام میں گفتگو ہوئی ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جواب دیا اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا، آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی مقدر اور مقرر کر لیا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اس گفتگو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کر دیا۔ (بخاری: ۴۷۳۶)