وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے انکار کیا۔
جنت میں بلا مشقت ہر طرح کا آرام تھا: جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بزرگی کے اظہار کے لیے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کیا، اس وقت آدم علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی اماں حوا کا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آ جانا۔ ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑ جاؤ گے۔ یعنی جنت میں کھانے، پینے،لباس اور مسکن کی جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لیے سخت محنت و مشقت کرنی پڑے گی۔ مثلاً دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لیے مکان بنانا ہوگا، اور کھانے پینے کے لیے کوئی ذریعہ معاش تلاش کرنا ہوگا اور پہننے کے لیے لباس کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ اور تمھاری زندگی کا بیشتر حصہ انھی باتوں کے حصول میں خرچ ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں صرف آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ تو محنت و مشقت میں پڑ جائے گا حالانکہ پھل کھانے والے دونوں ہی تھے۔ کیونکہ اصل مخاطب آدم علیہ السلام ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے۔ عورت کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس محنت ومشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ ’’اعزاز الٰہی‘‘ ’’طوق غلامی‘‘ نظر آتا ہے۔ جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بے قرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین و دلفریب ہے۔