وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکید کی، پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی کچھ پختگی نہ پائی۔
بھول چوک انسانی فطرت میں شامل ہے۔ نسیان (یعنی بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشتی کا جذبہ، اور اللہ کی نافرمانی کاعزم مصم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں۔ کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استغفار میں مصروف ہو جاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی کیا) اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمھیں جنت سے نہ نکلوا دے، یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے چنانچہ ایک طویل مدت بعد جب آدم علیہ السلام اس عہد کو بھول ہی چکے تھے، شیطان کا داؤ چل گیا اور آپ شیطان کے فریب میں آگئے شیطان نے قسمیں کھا کر انھیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے اسے حیات جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ (اسی لیے اس درخت کے قریب جانے اور اس سے کچھ کھانے کو منع فرمایا تھا) توآدم علیہ السلام ارادے پر قائم نہ رہ سکے اوراس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہو گئے۔