فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
پس بہت بلند ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے، اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر، اس سے پہلے کہ تیری طرف اس کی وحی پوری کی جائے اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔
وحی کو توجہ سے سننے کا حکم: ابتداً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جبرائیل وحی لے کر نازل ہوئے تو آپ ساتھ ہی ساتھ وحی کے الفاظ کو اس خیال سے دہرانے لگتے کہ بعد میں بھول نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ساتھ ساتھ اس کو یاد رکھنے کی اور جلدی جلدی زبان چلانے کی کوشش نہ کیجیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ۔ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ۔ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ﴾ (القیامۃ: ۱۶۔ ۱۹) ’’تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے تاکہ اسے جلدی حاصل کرلے، اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ حدیث میں آتا ہے کہ ’’پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دقت ہوتی تھی جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مشقت سے چھوٹ گئے۔ (بخاری: ۵) اسی بات کا دوسرے انداز سے اعادہ کیا گیا اور یہ ہدایت بھی کی گئی کہ ساتھ ہی ساتھ آپ یہ دعا بھی کرتے رہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم میں اور زیادہ سمجھ اور بیش از بیش علوم و معارف عطا فرما چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اللہ نے قبول کی اور وفات تک آپ علم میں بڑھتے ہی رہے۔ ایک حدیث میں ہے: ’’وحی برابر پے در پے آتی رہی، یہاں تک کہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کو تھے اس دن بھی بکثرت وحی اتری۔ ابن ماجہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے: ’’اے اللہ تونے جو علم مجھے دیا ہے اس سے مجھے نفع دے اور مجھے وہ علم دے جو مجھے نفع دے اور میرے علم میں اضافہ فرما اور ہر حال میں اللہ کی ہی تعریف ہے اور میں جہنم والوں کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (ابن ماجہ: ۳۸۳۳، ترمذی: ۳۵۹۹)